Urdu

صحیح مسلم اردو ترجمہ کتا ب الایمان شروع سب سے زیادہ رحم کرنے والے ، ہمیشہ مہربانی کرنے والے اللہ کے نام سے ۔ تمام تر حمد وثنا سارے جہانوں کے پالنے والے اللہ کے لیے اور بہترین جزا تقویٰ اختیار کرنے والوں کے لیے ہے ۔ اللہ خاتم النبیین محمدﷺ پر اپنی رحمت نازل فرمائے اور تمام نبیوں اور رسولوں پر بھی ۔ اس کے بع اللہ آپ رحم فرمائے! بلاشبہ آپ نے اپنے پیدا کرنے والے کی توفیق سے یہ ذکر کیا ہے کہ آپ دین کے طریقوں اور احکام کے بارے میں رسول اللہ ﷺ سے ( امت تک ) پہنچنے والی تمام احادیث کو ان کی منقولہ اسناد سمیت جاننا چاہتے ہیں اور ان احادیث کو بھی جو ثواب اور عذاب ، رغبت دلانے اور ڈرانے اور ان جیسی دوسری چیزوں کے بارے میں ہیں اور اہل علم نے ایک دوسرے سے لیں اور پہنچائیں ۔ اللہ آپ کی رہنمائی فرمائے ! آپ چاہتے ہیں کہ یہ تمام احادیث شمار کر کے مجموعے کی شکل میں آپ کی دسترس میں لائی جائیں ۔ آپ نے مجھ سے یہ مطالبہ کیا ہے کہ میں ان احادیث کو زیادہ تکرار کے بغیر آپ کے لیے ایک تالیف کی شکل میں ملخص کر دوں کیونکہ آپ سمجھتے ہیں کہ یہ ( تکرار ) ان احادیث کو اچھی طرح سمجھنے اور ان سے استنباط کرنے میں آپ کے لیے رکاوٹ کا باعث بنے گا جو کہ آپ کا ( اصل ) مقصد ہے ( اللہ آپ کو عزت دے! ) آپ نے جس چیز کا ( مجھ سے ) مطالبہ کیا ہے ، جب میں نے اس کے اور اس سے حاصل ہونے والے ثمرات کے بارے میں غوروفکر کی طرف رجوع کیا تو ( مجھے یقین ہو گیا کہ ) ان شاء اللہ اس کے نتائج قابل تعریف اور فوائد یقینی ہوں گے ۔ اور جب آپ نے مجھ سے اس کام کی زحمت اٹھانے کا مطالبہ کیا تو مجھے یقین ہو گیا کہ اگر مجھے اس کی توفیق ملی اور اللہ کی طرف سے اس کے مکمل ہونے کا فیصلہ ہوا تو پہلا شخص ، جسے دوسرے لوگوں سے قبل اس سے خاص طور پر فائدہ ہو گا ، وہ میں خود ہوں گا ۔ اس کی وجوہات اتنی زیادہ ہیں کہ ان کا ذکر طوالت کا باعث ہو گا ، البتہ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ان خصوصیات کی حامل کم احادیث کو محفوظ رکھنا اور ان میں اچھی طرح مہارت حاصل کرنا انسان کے لیے کثیر احادیث کو سنبھالنے کی نسبت زیادہ آسان ہے ، خصوصاً عوام میں سے ایک ایسے شخص کے لیے جو اس وقت تک ان میں ( سے صحیح اور ضعیف کے بار ے میں بھی ) امتیاز نہیں کر سکتا جب تک کوئی دوسرا اسے اس فرق سے آگاہ نہ کرے ۔ جب معاملہ اسی طرح ہے جیسے ہم نے بیان کیا تو کم تعداد میں صحیح ( احادیث ) چن لینا کثیر تعداد میں ضعیف احادیث کو جمع کرنے سے کہیں بہتر ہے ۔ یہ بات ( اپنی جگہ ) درست ہے کہ بہت سی احادیث کو اکٹھا کرنے اور مکرر ( احادیث ) کو جمع کرنے کے بھی کچھ فوائد ہیں ، خصوصاً ان لوگوں کے لیے جنہیں اس ( علم ) میں کسی قدر شعور اور اسباب وعلل کی معرفت سے نوازا گیا ہے ۔ اللہ کی مشیت سے ایسا انسان ان خصوصیات کی وجہ سے جو اسے عطا کی گئی ہیں ، کثیر احادیث کے مجموعے سے فائدہ حاصل کر سکتا ہے لیکن جہاں تک عوام الناس کا تعلق ہے جو شعو ومعرفت رکھنے والے خواص سے مختلف ہیں ، وہ کم احادیث کی معرفت سے بھی عاجز ہیں تو ان کے لیے کثیر احادیث کے حصول میں کوئی فائدہ نہیں ۔ پھر آپ نے جس ( کتاب ) کا مطالبہ کیا ہم ان شاء اللہ اس التزام کے ساتھ اس کی اس کی تخریج ( مختلف پہلوؤں سے اس کی وضاحت ) اور تالیف کا آغاز کرتے ہیں جس کا میں آپ کے سامنے ذکر کرنے لگا ہوں اور وہ یہ ہے کہ ہم ان تمام احادیث کو لے لیں گے جو سنداً نبی اکرمﷺ سے بیان کی گئیں اور تکرار کے بغیر انہیں تین اقسام اور ( بیان کرنے والے ) لوگوں کے تین طبقوں کے مطابق تقسیم کریں گے ، الا یہ کہ کوئی ایسا مقام آ جائے جہاں کسی حدیث کو دوبارہ ذکر کیے بغیر چارہ نہ ہو ، ( مثلاً : ) اس میں کوئی معنیٰ زیادہ ہو یا کوئی سند ایسی ہو جو کسی علت یا سبب کی بنا پر دوسری سند کے پہلو بہ پہلو آئی ہو کیونکہ حدیث میں ایک زائد معنیٰ ، جس کی ضرورت ہو ، ایک مکمل حدیث کے قائم مقام ہوتا ہے ، اس لیے ایسی حدیث کو ، جس میں ہمارا بیان کردہ کوئی ( معنوی ) اضافہ پایا جاتا ہے ، دوبارہ لائے بغیر چارہ نہیں یا جب ممکن ہوا تو ہم اس معنیٰ کو اختصار کے ساتھ پوری حدیث سے الگ ( کر کے ) بیان کر دیں گے لیکن بسااوقات اسے پوری حدیث سے الگ کرنا مشکل ہوتا ہے اور جب اس کی گنجائش نہ ہو تو اسے اصل شکل میں دوبارہ بیان کرنا زیادہ محفوظ ہوتا ہے ، البتہ جہاں ہمارے لیے اسے مکمل طور پر دہرانے سے بچنا ممکن ہو گا اور ( کامل شکل میں ) ہمیں اس کی ضرورت نہ ہو گی تو ہم ان شاء اللہ اس سے اجتناب کریں گے ۔ جہاں تک پہلی قسم کا تعلق ہے ( اس میں ) ہم یہ کوشش کریں گے کہ انہی احادیث کو ترجیح دیں جو دوسری احادیث کی نسبت ( فنی ) خامیوں سے زیادہ محفوظ اور زیادہ پاک ہوں ، یعنی ان کے ناقلین ( راوی ) نقل حدیث میں صحت اور ثقاہت رکھنے والے ہوں ، ان کی روایت میں شدید اختلاف پایا جائے نہ ( الفاظ ومعانی کو ) بہت برے طریقے سے خلط ملط کیا گیا ہو جس طرح کہ بہت سے احادیث بیان کرنے والوں میں پایا گیا ہے اور ان کی روایت میں یہ چیز واضح ہوچکی ہے ۔ جب ہم اس قسم کے ( ثقہ ) لوگوں کی مرویات کا احاطہ کر لیں گے تو بعد ازیں ایسی روایات لائیں گے جن کی سندوں میں کوئی ایسے راوی موجود ہوں گے جو طبقہ اولیٰ جیسے ( راویوں کے ) حفظ واتقان سے متصف نہیں لیکن وہ بھی ( انہی میں سے ہیں ) چاہے ان صفات میں ان سے ذرا کم ہیں جن کو ان سے مقدم رکھا گیا ہے لیکن عفت ، صدق اور علم سے شغف رکھنے جیسی صفات ان میں عام ہوں ، جس طرح عطاء بن سائب ، یزید بن ابی زیاد ، لیث بن ابی سلیم اور ان کی طرح کے ( دیگر ) حاملین آثار اور ناقلین اخبار ہیں ۔ یہ حضرات اگرچہ اہل علم کے ہاں علم اور عفت ( جیسی صفات ) میں معروف ہیں لیکن ان کے ہم عصر لوگوں میں سے ( بعض ) دیگر حضرات ایسے ہیں جو اتقان اور روایت کی صحت کے معاملے میں اپنے مقام اور مرتبے کے اعتبار سے ان سے افضل ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اہل علم کے ہاں یہ ( حفظ واتقان ) ایک بہت اونچا مرتبہ اور ایک اعلیٰ ترین صفت ہے ۔ آپ دیکھتے نہیں کہ ان تینوں حضرات : عطاء ، یزید اور لیث ، جن کا ہم نے ابھی نام لیا ، کا موازنہ حدیث کے حفظ و اتقان میں منصور بن معتمر ، سلیمان اعمش اور اسماعیل بن ابی خالد سے کریں تو انہیں آپ ان حضرات سے خاصے فاصلے پر پائیں گے ، یہ ان کے قریب بھی نہیں آ پاتے ۔ ماہرین علم حدیث کو اس بارے میں کوئی شک نہیں کہ منصور ، اعمش اور اسماعیل کے ہاں حفظ کی صحت اور حدیث بیان کرنے میں مہارت کی جو صفات فراواں اہل علم کو نظر آتی ہیں ان کے نزدیک وہ عطاء ، یزید اور لیث کے ہاں اس طرح معروف نہیں ۔ اگر آپ ( دیگر ) ہمسروں کے درمیان موازنہ کریں تو ( بھی ) یہی ماجرا ( سامنے آتا ) ہے ، مثلاً آپ ابن عون اور ایوب سختیانی کا ( موازنہ ) عوف بن ابی جمیلہ اور اشعث حمرانی سے کریں ۔ یہ دونوں ( بھی اسی طرح ) حسن بصری اور ابن سیرین کے شاگرد ہیں جس طرح ابن عون اور ایوب ان کے شاگرد ہیں لیکن ان دونوں اور ان دونوں کے درمیان کمال فضل اور صحت نقل کے اعتبار سے بہت بڑا فاصلہ پایا جاتا ہے ۔ عوف اور اشعث بھی اگرچہ اہل علم کے ہاں صدق وامانت سے ہٹے ہوئے نہیں ( مانے جاتے ) لیکن جہاں تک مرتبے کا تعلق ہے تو اہل علم کے ہاں حقیقت وہی ہے جو ہم نے بیان کی ۔ ہم نے نام ذکر کر کے مثال اس لیے دی ہے تاکہ اس شخص کے لیے ، جو اہل علم کے ہاں حاملین حدیث کی درجہ کے طریقے سے ناواقف ہے ، یہ مثال ایسا واضح نشان ثابت ہو جس کے ذریعے سے وہ مکمل واقفیت حاصل کر لے اور اونچا درجہ رکھنے والے کو اس کے مرتبے سے گھٹائے اور نہ کم درجے والے کو اس کے مرتبے سے بڑھائے ، ہر ایک کو اس کا حق دے اور اس کے مرتبے پر رکھے ۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ سے روایت بیان کی گئی ، انہوں نے کہا : ہمیں رسول اللہﷺ نے حکم دیا تھا کہ کہ ہم لوگوں کو ان کے مرتبوں پر رکھیں ۔ اس کے ساتھ ہی اللہ کا حکم جو قرآن نے بیان فرمایا : ’’ہر علم والے سے اوپر ایک علم رکھنے والا ہے ۔ ‘ ‘ ہم احادیث رسولﷺ کو اپنی ذکر کردہ صورتوں کے مطابق تالیف کریں گے ۔ جو احادیث ان لوگوں سے مروی ہیں جو ( تمام ) ماہرین علم حدیث یا ان میں سے اکثر کے نزدیک متہم ہیں ، ہم ان کی روایات سے کوئی سروکار نہ رکھیں گے ، جیسے : عبد اللہ بن مسور ابو جعفر مدائنی ، عمرو بن خالد ، عبد القدوس شامی ، محمد بن سعید مصلوب ، غیاث بن ابراہیم ، سلیمان بن عمرو نخعی اور ان جیسے دیگر لوگوں کی مرویات سے بھی ، جن پر وضع احادیث اور روایات سازی کے الزامات ہیں ۔ اسی طرح وہ لوگ جن کی مرویات کی غالب تعداد منکر اور غلط ( احادیث ) پر مشتمل ہے ، ہم ان کی احادیث سے بھی احتراز کریں گے ۔ کسی حدیث بیان کرنے والے کی منکر روایت کی نشانی یہ ہے کہ جب اس کی روایت کردہ حدیث کا دوسرے اصحاب حفظ اور مقبول ( محدثین ) کی روایت سے موازنہ کیا جائے تو وہ ان کی روایت کے مخالف ہو یا ان کے ساتھ موافق نہ ہو پائے ۔ جب کسی کی اکثر مرویات اس طرح کی ہوں تو وہ متروک الحدیث ہوتا ہے ، اس کی روایات غیر مقبول ہوتی ہیں ، ( اجتہاد واستنباط کے لیے ) استعمال نہیں ہوتیں ۔ اس قسم کے راویان حدیث میں عبد اللہ بن محرر ، یحییٰ بن ابی انیسہ ، جراح بن منہال ابو عطوف ، عباد بن کثیر ، حسین بن عبد اللہ بن ضمیرہ ، عمر بن صہبان اور اس طرح کے دیگر منکر روایات بیان کرنے والے لوگ شامل ہیں ، ہم ان کی روایت کا رخ نہیں کرتے نہ ان روایات سے کوئی سروکار ہی رکھتے ہیں ۔ کیونکہ حدیث میں متفرد راوی کی روایت قبول کرنے کے متعلق اہل علم کا معروف مذہب اور ان کا فیصلہ یہ ہے کہ اگر وہ ( راوی ) عام طور پر اہل علم وحفظ ثقات کی موافقت کرتا ہے اور اس نے گہرائی میں جا کر ان کی موافقت کی ہے تو ایسی صورت میں اگر وہ ( متفرد ) کوئی ایسا اضافہ بیان کرتا ہے جو اس کے دوسرے ہم مکتبوں کے ہاں نہیں ہے تو اس کا یہ اضافہ ( محدثین کے ہاں ) قبول کیا جائے گا لیکن جس ( حدیث بیان کرنے والے ) کو آپ دیکھیں کہ وہ امام زہری جیسے جلیل القدر ( محدث ) سے روایت بیان کرتا ہے جن کے کثیر تعداد میں ایسے شاگر د ہیں جو حفاظ ( حدیث ) ہیں ، ان کی اور دوسرے ( محدثین ) کی روایت کے ماہر ہیں یا وہ ہشام بن عروہ جیسے ( امام التابعین ) سے روایت کرتا ہے ۔ ان دونوں کی احادیث تو اہل علم کے ہاں خوب پھیلی ہوئی ہیں ، وہ سب ان کی روایت میں ( ایک دوسرے کے ساتھ ) اشتراک رکھتے ہیں اور ان دونوں کی اکثر احادیث میں ان کے شاگرد ایک دوسرے سے متفق ہیں اور یہ شخص ان دونوں یا ان میں سے کسی ایک سے متعدد ایسی احادیث روایت کرے جن میں ان کے شاگردوں میں سے اس کے ساتھ کوئی اور شریک نہیں تو اس جیسے لوگوں سے اس قسم کی کوئی حدیث قبول کرنا جائز نہیں ۔ اللہ ( ہی ) زیادہ جاننے والا ہے ۔ ہم نے حدیث اور اصحاب حدیث ( محدثین ) کے طریق کار کا کچھ حصہ ہر اس شخص کی توجہ کےلیے جو ان کے راستے پر چلنا چاہتا ہے اور جسے اس کی توفیق نصیب ہوتی ہے ، تفصیل سے بیان کر دیا ہے ۔ ان شاء اللہ ہم ( اس طریق کار کی ) مزید شرح اور وضاحت کتاب کے ان مقامات پر کریں گے جہاں معلول احادیث ( جن میں کوئی خفیہ علت پائی جاتی ہے ) کا ذکر ہو گا ، ( یعنی ) جب ہم وہاں پہنچیں گے جہاں اس ( موضوع ) کی شرح اور وضاحت کا مناسب موقع ہو گا ۔ ان شاء اللہ تعالیٰ اس ( وضاحت ) کے بعد ، اللہ آپ پر رحم فرمائے! ( ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ) اگر ہم نے اپنے آپ کو محدث کے منصب پر فائز کرنے والے بہت سےلوگوں کی ضعیف احادیث اور منکر روایات کے بیان کو ترک کرنے جیسے معاملات میں ، جن کا التزام ان کے لیے لازم تھا ، غلط کارروائیاں نہ دیکھی ہوتیں ، اور اگر انہوں نے صحیح روایات کے بیان پر اکتفا کو ترک نہ کیا ہوتا ، جنہیں ان ثقہ راویوں نے بیان کیا جو صدق وامانت میں معروف ہیں ، وہ بھی ان کے اس اعتراف کے بعد کہ جو کچھ وہ ( سیدھے سادھے ) کم عقل لوگوں کے سامنے بے پروائی سے بیان کیے جا رہے ہیں ، اس کا اکثر حصہ غیر مقبول ہے ، ان لوگوں سے نقل کیا گیا ہے جن سے لینے پر اہل علم راضی نہیں اور جن سے روایت کرنے کو ( بڑے بڑے ) ائمہ حدیث ، مثلاً مالک بن انس ، شعبہ بن حجاج ، سفیان بن عیینہ ، یحییٰ بن سعید قطان ، عبد الرحمن بن مہدی وغیرہم قابل مذمت سمجھتے ہیں ۔ اگر ہم نے یہ سب نہ دیکھا ہوتا تو آپ نے ( صحیح وضعیف میں ) امتیاز اور ( صرف صحیح کے ) حصول کے حوالے سے جو مطالبہ کیا ہے اسے قبول کرنا آسان نہ ہوتا ۔ لیکن جس طرح ہم نے آپ کو قوم کی طرف سے کمزور اور مجہول سندوں سے ( بیان کی گئی ) منکر حدیثوں کو بیان کرنے اور انہیں ایسے عوام میں ، جو ان ( احادیث ) کے عیوب سے ناواقف ہیں ، پھیلانے کے بارے میں بتایا تو ( صرف ) اسی بنا پر ہمارے دل کے لیے آپ کے مطالبے کو تسلیم کرنا آسان ہوا ۔